وہ بحری قزاق جس نے اورنگزیب کو بھی للکارا اور ’تاریخ کی سب سے بڑی‘ لوٹ مار کی

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان پر اورنگزیب عالمگیر کی حکومت قائم تھی اور دنیا کی ایک چوتھائی دولت ہندوستان میں پائی جاتی تھی اور یورپی ہندوستان کے ساتھ تجارت کرکے بہت زیادہ منافع کما رہے تھے۔
کیا برطانیہ کیا پرتگالی اور کیا ڈچ سب کے سب آپس میں برسرپیکار تھے کہ انھیں ہندوستان کے ساتھ تجارت میں اجارہ داری مل جائے اور بحر اوقیانوس سے لے کر بحرالکاہل اور بحرہند سب ان کے معرکوں کا گواہ تھا۔
مزید پڑھیں
اسی دوران 1695 کے اواخر میں ایک ایسا واقعہ پیش آيا جس نے بادشاہ اورنگزیب کے جلال کو للکارا اور پھر انھوں نے انگریزوں کے خلاف جو فرمان جاری کیا اس سے تاج برطانیہ بھی لرز اُٹھا۔
واقعہ یوں ہے کہ حجاز سے حجاج کا قافلہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے بحری بیڑے گنج سوائی اور فتح محمد کے ہمراہ ہندوستانی بندرگاہ سورت واپس آ رہا تھا۔
اس بحری بیڑے میں تقریبا دو درجن جہاز تھے جنھیں بحری قزاقوں کے ایک گروپ نے گھیر لیا اور کئی دنوں کی شدید جنگ کے بعد انھوں نے تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ کو انجام دیا۔
عہد اورنگزیب کے معروف تاریخ داں خافی خان نے اسے جہاز کے کپتان محمد ابراہیم کی نا اہلی قرار دیا کیونکہ ان کے مطابق نصرانی تلوار کے استعمال میں بہت ماہر نہیں ہو تے ہیں اور یہ کہ شاہی جہاز میں اس قدر اسلحے تھے کہ اگر کپتان کوئی مزاحمت کرتا تو حملہ آوروں کو ضرور شکست ہوتی۔
انھوں نے اپنی تصنیف منتخب اللباب میں لکھا ہے کہ ’جہاز میں کافی سامان جنگ تھا اور 80 توپیں اور 400 بندوقیں بھی نصب تھیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’جب گنج سوائی سورت سے آٹھ نو روز کے فاصلے پر پہنچا تو انگریزوں کا جہاز جو شاہی جہاز کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا نمودار ہوا۔ اس میں گنج سوائی کے مقابلے میں چوتھائی سامان جنگ بھی نہیں تھا۔
جب دونوں جہاز گولہ باری کی زد پر آ گئے تو پہلے بادشاہی جہاز نے توپ سر کی مگر بدقسمتی سے توپ پھٹ گئی اور لوہے کے ٹکڑے جو اڑے تو تین چار آدمی تلف ہو گئے۔ اسی اثنا میں دشمن کے جہاز کا ایک گولہ جہاز کی درمیانی لکڑی پر لگا اور گنج سوائی کا ڈول ناکارہ ہو گيا۔‘
اورنگزیب کے فرمان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے سورت میں مقیم تمام افسران کو قید کر لیا گیا اس کے علاوہ بمبئی کے خلاف بھی فوج کشی کا فرمان جاری کر دیا گیا (فوٹو: اے پی)
ان کے مطابق انگریزوں کو بھی اس کا پتہ چل گیا اور وہ جہاز کے قریب آ کر تلواریں سونت لیں اور گنج سوائی پر کود پڑے۔ نصرانی تلوار کی جنگ میں مسلمانوں سے جیت نہیں سکتے تھے پھر جہاز میں کافی سامان حرب موجود تھا اگر اس وقت کپتان ثابت قدمی اور استقلال سے کام لیتا تو ان کو مار بھگاتا مگر انگریزوں کے غلبے کو دیکھ کر وہ ایسا بدحواس ہوا کہ جہاز کے نچلے حصے میں عرشے سے نیچے اتر گیا۔
جہاں اس نے کنیزوں کے سر پر رومان بندھوا کر ان کے ہاتھ میں تلواریں دے دیں اور ان کو مقابلے پر آمادہ کیا۔
انگریزوں نے حملہ کرکے پہلے ان کنیزوں کو گرفتار کر لیا اور سارے جہاز پر قابض ہو گئے۔ جو کچھ جہاز میں سرخ و سفید زر نقد تھا، نکلوا کر مع اسیرو کے اپنے جہاز پر پہنچا دیا۔
ان کا جہاز اس نئے بار سے زیادہ بوجھل ہو گیا تھا اور وہ اپنے ملک کو یہ سارا بوجھ لے کر نہیں جا سکتے تھے اس لیے جہاز کے ساتھ بادشاہی جہاز کو لے کر اپنے تعلقہ سے قریب ایک ساحل پر پہنچے اور تقریباً ایک ہفتے تک مال کی تفتیش کرکے جوان بوڑھی تمام عورتون کی بے آبروئی کی اور پھر جہاز اور جہاز والوں کو چھوڑ دیا۔
بعض لوگوں نے اسے مبالغہ آمیزی کہا ہے لیکن جب بادشاہ اورنگزیب کو اس سانحے کی خبر پہنچی تو وہ انتہائی غیض و غضب میں آ گئے اور پھر انگریزوں کے خلاف جو مہم شروع ہوئی اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان سے تقریباً بے دخل کر دیا۔
اورنگزیب کے فرمان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے سورت میں مقیم تمام افسران کو قید کر لیا گیا اس کے علاوہ بمبئی کے خلاف بھی فوج کشی کا فرمان جاری کر دیا گیا۔
خافی خان کے مطابق پہلے تو انگریزوں نے اس سے انکار کیا لیکن پھر اپنے خلاف جاری کارروائی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے انگلستان کو خبر کیا اور پھر تاج برطانیہ نے نہ صرف ہرجانہ ادا کرنے کی پیش کش کی بلکہ بحری قزاقوں کے خلاف دنیا کا پہلا ’مین ہنٹ‘ بھی جاری کیا۔

مغل بحری جہاز پر حملہ کرنے والے کون تھے؟

ارسلا سمز ولیمز نے ایشین افریقن سٹڈیز میں لکھا ہے ہنری ایوری نامی انگریز بحری قزاق نے دنیا کی سب سے بڑی لوٹ کو انجام دیا تھا۔
انھوں نے لکھا کہ انگلینڈ کی ‘ویسٹ کنٹری میں پیدا ہونے والے ہنری ایوری (جنھیں صرف ایوری، جان ایوری اور ‘لانگ بین’ بھی کہا گیا ہے) کو ایک جہاز پر فرسٹ میٹ کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا جسے اس نے ہائی جیک کرلیا اور مڈغاسکر روانہ ہو گيا۔
وہاں اس نے ایک بڑے عملے کو بھرتی کیا اور بحری قزاقی کے ایک کامیاب اگرچہ مختصر مدت کے کیریئر کا آغاز کیا۔ گنج سوائی پر قبضہ کرنے کے بعد ایوری اور اس کے آدمی ویسٹ انڈیز چلے گئے جہاں وہ سب اپنے الگ الگ راستے چلے گئے۔
عملے کے کئی ارکان کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا لیکن ایوری کے بارے میں دوبارہ کبھی نہیں سنا گیا۔ اس نے بحر اوقیانوس سے اپنا سفر شروع کیا اور بحر ہند میں پہنچتے پہنچتے وہ دوسرے بحری قزاقوں کا سرغنہ بن گیا اور فینسی نام کے اپنے جہاز کے ساتھ مغل جہازوں پر حملہ آور ہوا تھا۔
اس وقت اس کی کمانڈ میں کل تقریباً ساڑھے چار سو افراد تھے جبکہ گنج سوائی اور دوسرے مغل جہازوں پر تقریبا 1100 فوجی موجود تھے۔
فتح محمد نامی جہاز سے انھوں نے تقریبا 50 ہزار پاؤنڈ سے 60 ہزار پاؤنڈ کی رقم اور مال اسباب حاصل کیے تھے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے اپنی فینسی جہاز کے قسم کے 50 جہاز خرید سکتا تھا۔
پھر گنج سوائی سے اس نے اس وقت کے دو لاکھ پاؤنڈ سے چھ لاکھ پاؤنڈ کی مالیت کا خزانہ لوٹا جو آج تک کی سب سے بڑی لوٹ کہی جا سکتی ہے۔
اورنگزیب کے دباؤ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہرجانہ بھرنے کی بات کہی جبکہ تاج برطانیہ نے اس عمل کو انسانیت مخالف عمل قرار دیا اور ایوری کی خبر دینے والے کے لیے 500 پاؤنڈ کے انعام کا اعلان کیا اور پھر جواب مزید بڑھا تو انعامی رقم بڑھا کر ایک ہزار پاؤنڈ کر دی گئی جو کہ آج کے حساب سے تقریباً پونے دو لاکھ پاؤنڈ بنتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس انسانیت کے دشمن کے لیے کسی قسم کی کوئی معافی نہیں ہے۔ لیکن اس کا پتہ نہ چل سکا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے